(ایجنسی)
ملائشین ایئر لائنز کے لاپتہ طيارے کی تلاش کا علاقہ ’نئی قابل بھروسہ معلومات‘ سامنے آنے کے بعد تبدیل کر دیا گیا ہے۔ خراب موسم کے سبب عارضی تعطلی کے بعد جمعہ سے تلاش کا کام دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔
آسٹريلوی شہر پرتھ سے ملنے والی تازہ معلومات کے مطابق ’نئی قابل بھروسہ معلومات‘ کے سامنے آنے کے بعد جمعہ کو جب تلاش کا عمل بحال ہوا، تو يہ عمل اُس مقام سے قريب گيارہ سو کلوميٹر شمال مشرق ميں شروع ہوا، جہاں پچھلے دنوں تک طيارے کے ملبے کو تلاش کيا جا رہا تھا۔ آسٹریلوی میری ٹائم سیفٹی اتھارٹی کے مطابق یہ فیصلہ راڈار سے ملنے والے ڈیٹا کے مسلسل تجزیے کے بعد کیا گیا ہے۔ تجزیے کے مطابق طيارہ سابق اندازوں کے مقابلے میں زیادہ رفتار سے پرواز کر رہا تھا، جس سبب اُس کا ايندھن بھی تيزی سے ختم ہوا اور امکاناﹰ يہ جہاز پہلے سے لگائے جانے والے اندازوں سے کم سفر کرنے ميں کامياب رہا۔
نئی معلومات کے سامنے آنے کے بعد چھ مختلف ممالک کے دس ہوائی جہاز سميت چين کے پانچ بحری جہاز اور آسٹريليا کا ايک بحری جہاز تلاش کے نئے علاقے کی جانب گامزن ہيں۔ گزشتہ روز خراب موسم کے سبب تلاش کے عمل کو عارضی طور پر روکنا پڑا تھا۔
اس سے قبل تھائی لينڈ نے جمعرات کے روز سيٹلائٹ سے لی جانے
والی ايسی تصاوير جاری کی تھيں، جن ميں کئی سو ٹکڑوں کو پانی کی سطح پر تيرتے ہوئے ديکھا جا سکتا ہے۔ اسی دوران جاپان کی جانب سے بھی اعلان کيا گيا کہ سيٹلائٹ سے لی گئی تصاوير کے جائزے کے تحت دس چوکور ٹکڑوں کو تيرتے ہوئے ديکھا جا سکتا ہے۔ تاحال يہ واضح نہيں ہے کہ آيا آج اُس سمندری علاقے ميں تلاش جاری ہے، جس ميں تھائی لينڈ اور جاپان نے ٹکڑوں کی نشاندہی کی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی تھائی لينڈ، فرانس اور چين اپنے اپنے سيٹلائٹس کے ذريعے چند علاقوں ميں پانی کی سطح پر ٹکڑوں کی نشاندہی کر چکے ہيں ليکن تلاش تاحال بے نتيجہ ہی ہے۔
ملائيشيا ايئر لائنز کی پرواز MH370 آٹھ مارچ کو کوالالمپور سے بيجنگ جاتے ہوئے اچانک لاپتا ہو گئی تھی۔ اس طيارے پر عملے سميت کُل 239 افراد سوار تھے۔ راڈار اور سيٹلائٹس سے حاصل کردہ معلومات کے تجزيوں سے يہ بات سامنے آ چکی ہے کہ يہ طيارہ اپنے طے شدہ روٹ سے بالکل ہی مخالف سمت ميں بحر ہند کی جانب پرواز کر رہا تھا۔ ماہرين نے امکان ظاہر کيا ہے کہ يہ طيارہ آسٹريليا کے مغربی کنارے سے دور بحر ہند ميں کسی مقام پر گر کر تباہ ہو چکا ہے اور ملائيشين حکام يہ اعلان بھی کر چکے ہيں کہ کوئی بھی مسافر بچنے ميں ناکام رہا۔ البتہ متاثرہ خاندان ٹھوس شواہد کے مطالبات جاری رکھے ہوئے ہيں۔